Chinar Book Festival 2025 – 5th day Rush too.
چنار بک فیسٹیول 2025 کے پانچویں دن بھی کثیر تعداد میں شائقینِ کتب کی شرکت، تین ادبی و ثقافتی پروگراموں کا انعقاد
مذاکرے کے آخر میں نسرین حمزہ کی کتاب ‘راکھ میں دبی چنگاری’ اور طہ نسیم کی کتاب ‘ترنگا آنچل’ کا اجرا بھی عمل میں آیا۔
چنار بک فیسٹیول 2025 کے پانچویں دن بھی کثیر تعداد میں شائقینِ کتب کی شرکت، تین ادبی و ثقافتی پروگراموں کا انعقاد

MPNN DESK NEWS
سری نگر / نئی دہلی: نیشنل بک ٹرسٹ ، انڈیا اور قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام سرینگر کے ایس کے آئی سی سی میں نو روزہ چنار بک فیسٹیول نہایت خوب صورتی کے ساتھ جاری ہے۔اس فیسٹیول میں 200 سے زائد کتب فروش اورناشرین شرکت کر رہے ہیں اور شائقین کتب کثیر تعداد میں اس فیسٹیول کے تئیں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور کتابیں خرید رہے ہیں۔ فیسٹیول میں روزانہ مختلف النوع ادبی و ثقافتی پروگراموں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

Read it also Related News
👇👇👇👇
https://www.mpnn.in/nbt-chinar-pustak-mahotsv/
آج بھی قومی اردو کونسل اور شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کے اشتراک سے دو اہم ادبی مذاکرے ’ثقافتی مکالمہ:اردو تراجم کی روشنی میں ‘اور’لسانی روابط:اردو پر سنسکرت، فارسی اور کشمیری کے اثرات‘کے عنوان سے آتھر کارنر میں منعقد ہوئے جبکہ ایک اور مذاکرہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور خسرو فائونڈیشن کے زیر اہتمام’ اردو اور فارسی ادب میں صنفی مساوات کی وکالت‘کے عنوان سے منعقد ہوا۔
‘ثقافتی مکالمہ:اردو تراجم کی روشنی میں’ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر محمد زماں آزردہ(سابق صدر شعبہ اردو وڈین اسکول آف آرٹس، لینگویجز و لٹریچر،کشمیر یونیور سٹی) نے ترجمے کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ترجمے میں بنیادی طور پر دو زبانیں شامل ہوتی ہیں اور ہرزبان اپنے ساتھ ایک مخصوص ثقافت،اسلوب اور طرز فکر لے کر آتی ہے،اس لیے کسی بھی ترجمے کے دوران صرف لفظی ترجمہ کافی نہیں بلکہ اس لفظ کے پس منظر کو سمجھنا اور جاننا ضروری ہوتا ہے جس سے یہ لفظ وجود میں آیاہے،تبھی ترجمہ بہتر اور اچھا ہوگا۔انھوں نے مزید کہاکہ علمی نثر کا ترجمہ ادبی نثر کے مقابلے میں آسان ہوتاہے اس لیے کہ علمی نثر میں عام طور پر تکنیکی اصطلاحات کا چیلنج درپیش ہوتاہے مگر ادبی ترجمہ ایک پیچیدہ عمل ہے کہ اس میں صرف ایک زبان سے دوسری زبان میں مواد کو ہی منتقل نہیں کیا جاتا بلکہ ایک زبان کی تہذیب و ثقافت بھی دوسری زبان میں منتقل کی جاتی ہے۔

پروفیسرڈاکٹر شاد رمضان(سابق صدر شعبہ کشمیری،کشمیر یونیور سٹی)نے کہا کہ ہر زبان کا ایک محاوراتی نظام ہوتاہے، اگر مترجم اس سے واقف نہ ہو تو وہ کبھی بھی مؤثر اور بامعنی ترجمہ نہیں کرسکتا۔انھوں نے مزید کہاکہ کشمیر میں ترجمے کی روایت بہت پرانی ہے، ppکشمیر ی زبان میں لکھی گئی کتابوں اور تحریروں کا ترجمہ دوسری زبانوں میں صدیوں سے ہوتا آرہاہے، یہ تراجم نہ صرف علم و ادب کے تبادلے کا ذریعہ بنے بلکہ انھوں نے مختلف زبانوں اور تہذیبوں کے درمیان پل کا کام بھی کیاہے۔ پروفیسر شمس کمال انجم(ڈین وصدر،اسکول آف اسلامک اسٹڈیز،بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی) نے گفتگوکرتے ہوئے عربی زبان سے اردو میں جو تراجم ہوئے ہیں ان پر تفصیلی روشنی ڈالی اورکہاکہ امرؤ القیس اور متنبی وغیرہ کا ترجمہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوا ہے جس کی وجہ سے عربی زبان کی خوب صورتی اور اس کے ادب سے دنیا بھر کے لوگ واقف ہوئے۔انھوں نے مزید کہاکہ اگر ترجمے کا عمل نہ ہوتا اور مترجم نہ ہوتے تو ہم بہت سی علمی،فکری اور ادبی چیزوں سے ناواقف رہ جاتے ۔اس مذاکرے کی نظامت ڈاکٹر محمد الطاف آہنگر (ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹینس ایجوکیشن،کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔
Read it’s too
👇👇👇👇
https://www.ainaindianews.com/artical-s-z-mallick/
دوسرا مذاکرہ ’لسانی روابط:اردو پر سنسکرت،فارسی اور کشمیری کے اثرات‘کے عنوان سے منعقد ہوا،جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر نذیر احمد ملک(سابق صدر شعبہ اردو وڈین اسکول آف آرٹس،لینگویجز و لٹریچر،کشمیر یونیورسٹی)نے کہاکہ جب کسی علاقے یا خطے میں دو یا دوسے زائد زبانیں ایک دوسرے کے ربط میں آتی ہیں تو ان کے الفاظ، اسلوب وغیرہ میں لازمی طورپر تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔انھوں نے مزید کہاکہ اردو زبان پر بہت سی زبانوں کے اثرات ہیں لیکن سنسکرت اور فارسی کے اثرات زیادہ ہیں ۔پروفیسر اعجاز محمد شیخ(ماہر لسانیات و صدر شعبہ اردو وڈین اسکول آف آرٹس،لینگویجز و لٹریچر،کشمیر یونیور سٹی)نے کہا کہ اردو زبان پر دیگر زبانوں کے علاوہ کشمیری زبان کے اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ،کشمیری زبان کے مخصوص الفاظ اور لہجے وغیرہ اردو کی بول چال اور ادب میں شامل ہوچکے ہیں اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ کشمیر کے لوگ اردو بولتے ،لکھتے ،پڑھتے ہیں اور یہاں کے اخباروں کی زبان بھی اردو ہی ہے۔ ڈاکٹر جہانگیر اقبال(صدر شعبہ فارسی،کشمیر یونیور سٹی) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اردو برصغیر کی صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب و ثقافت ہے اور کشمیرمیں اردو کا مستقبل روشن اور درخشندہ ہے اس لیے کہ تقریبا ہرگھر میں بچے کشمیری کے بجائے اردو بولتے ہیں ۔ اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر صائمہ جان نے کی۔
تیسرا مذاکرہ بعنوان ’ اردو اور فارسی ادب میں صنفی مساوات کی وکالت‘ تھا۔اس مذاکرے میں ڈاکٹر سید مبین زہرا(ایسوسی ایٹ پروفیسر،دہلی یونیورسٹی) اور معروف ادبیہ و شاعرہ نسرین حمزہ علی نے موضوع سے متعلق اہم گفتگو کی اور کہاکہ اردو اور فارسی ادب میں خواتین کے مسائل ، حقوق اور مساوات کے حوالے سے اچھا خاصا مواد موجود ہے ۔عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر وغیرہ نے کھل کر اپنی بات رکھی ہے اور مساوات، صنفی تفریق اور سماجی رویوں پر کھل کر لکھاہے۔ اس مذاکرے کی نظامت جناب نذیر گنائی نے کی۔ مذاکرے کے آخر میں نسرین حمزہ کی کتاب ‘راکھ میں دبی چنگاری’ اور طہ نسیم کی کتاب ‘ترنگا آنچل’ کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمن (کنوینر. خسرو فاؤنڈیشن) نے شکریے کی رسم ادا کی.
ان پروگراموں میں طلبہ،اساتذہ اور اردو زبان و ادب سے محبت رکھنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
Read it also Related News
👇👇👇👇
https://www.mpnn.in/nbt-chinar-pustak-mahotsv/

