بیرسٹر محمد یونس (انٹریم گورنمنٹ1937ء) وزیراعلیٰ کے فہرست کی تختی سے پہلے پریمئر کانام غائب کیوں؟
دوسری بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے گورنر نے مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے لیڈر بیرسٹر محمد یونس کو حکومت سازی کے لیے دعوت دی اوراس طرح بیرسٹر محمد یونس صوبہ بہار کے؛پہلے پریمئر کی حیثیت سے صوبہ بہار کے منصب وزیراعظم پر فائز ہوئے
دوسری بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے گورنر نے مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے لیڈر بیرسٹر محمد یونس کو حکومت سازی کے لیے دعوت دی اوراس طرح بیرسٹر محمد یونس صوبہ بہار کے؛پہلے پریمئر کی حیثیت سے صوبہ بہار کے منصب وزیراعظم پر فائز ہوئے-بیرسٹرمحمدیونس نے مختلف عدالتوں میں وکالت کی اورانہوں نے ہرجگہ اپنا الگ مقام قائم کیا
صوبہ بہار کے پہلے پریمئر
بیرسٹر محمد یونس
(انٹریم گورنمنٹ1937ء)
وزیراعلیٰ کے فہرست کی تختی سے پہلے پریمئر کانام غائب کیوں؟
اعجازاحمد ایڈوکیٹ
صدر”مونس“(MUNIS)
(ماس یونین فورنیشنل انٹگریشن ایند سیلویشن)
بیرسٹر محمد یونس
صوبہ بہار کی مشہور شخصیات میں بیرسٹر محمدیونس کی شخصیت تاریخ ساز ہے،ہندوستان کی تاریخ سیاست میں ایک منفرد مقام رکھنے والے اس عظیم مجاہد آزادی کی خدمات کا مطالعہ موجودہ نسل کے بچوں کے لیے نہایت ضروری اوراہمیت کا حامل ہے؛کیونکہ ایسی شخصیتیں ہی آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ اورحوصلہ بخشنے والی ہوتی ہیں۔
آنجناب کی پیدائش ایک دیہات کے گاؤں نوبت پور پنہرا،ضلع پٹنہ میں مورخہ4 مئی1884ء کو ہوئی تھی،ان کے والد محترم مختار علی حسن مرحوم کے دوصاحبزادے بڑے بیرسٹر محمد یوسف اورچھوٹے بیرسٹر محمد یونس تھے،بڑے لڑکے محمد یوسف کو جناب مختار علی حسن نے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے لندن بھیجا اورمحمد یونس کی تعلیم کے سلسلہ میں وہ متفکر ضرورتھے؛لیکن اپنی مالی صلاحیت کے مطابق وہ اپنے دونوں بچوں کو بیک وقت لندن میں تعلیم کا نظم کرتے،ممکن نہ تھا،یہی وجہ تھی کہ جناب محمد یونس بڑے متفکر اورپریشان رہنے لگے،وہ نہایت صالح اولاد تھے اوراپنے والد کی پریشانیوں سے بخوبی واقف تھے۔بنیادی دینی تعلیم انہیں جہاں آباد کے پیلا گاؤں میں بزرگ امتھوا کے شاہ صاحب استاذ محترم سے حاصل ہوئی،چونکہ ان کی ماں مرحومہ زینت النساء کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ کافی چھوٹے تھے،اسی وجہ سے ان کی پرورش ان کے قریبی رشتہ دارکے گھر پیلا گاؤں جہان آباد میں ہوئی،انہوں نے عصری تعلیم شہر پٹنہ میں حاصل کی،کالجیٹ اسکول پٹنہ کے بعدپٹنہ کالج سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔بچپن ہی سے وہ کافی ذہین تھے،پڑھنے کے شوق نے انہیں علم قانون کا ماہر بنایا،جب ان کے والد نے اُنہیں لندن بھیجنے سے منع کردیاتو وہ مایوس نہ ہوئے؛بلکہ حوصلہ کو برقراررکھا۔ان کی شخصیت سازی میں ان کی پہلی بیگم زینت النساء کا اہم کردار ہے۔
مرحوم محترم مختار علی حسن نے اپنے بیٹے کی شادی یوسف پور فتوحہ،پٹنہ کے ایک مشہور زمیندار خاندان میں کی تھی،ان دنوں جناب مولوی عبدالجبار ایڈوکیٹ یوسف پور فتوحہ سے مرزا پور(یوپی)میں منتقل ہوکر وہیں قیام پذیر ہوگئے تھے۔ان کے دولڑکے محمد مظفر امام(منصف) اوربیرسٹر محمد یوسف امام مجاہد آزادی کے مشہور ومعروف شخصیت رہے ہیں۔ مولوی عبدالجبار کی اکلوتی بیٹی زینت النساء سے مسٹر محمد یونس کی شادی ہوئی،شادی کے بعد انہوں نے اپنی تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔چونکہ شادی میں ان کی بیوی کو کافی زیورات ملے تھے،اپنی شادی کے بعد انہوں نے اپنی بیوی کے زیورات کو بیچ کر لندن جانے کا فیصلہ کیا اورانہوں نے لندن کے”Middle Temple“سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی۔بیرسٹر محمد یونس کے بڑے بھائی محمد یوسف پاکستان چلے گئے؛لیکن مسٹر محمد یونس نے اپنے مادر وطن کو چھوڑنا گوارہ نہ کیا اوریہیں مستقل جدوجہد کرتے رہے۔
مسٹر محمد یونس کے صرف دوصاحبزادے(۱)محمد یٰسین یونس(۲)محمد یعقوب یونس،محمد یعقوب یونس کی پیدائش محمد یٰسین یونس کے نوسال بعد ہوئی،بڑے لڑکے محمد یٰسین یونس صاحب کو محمد یونس نے لندن تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بھیجا اورانہوں نے بیرسٹری کی تعلیم میں نمایاں کامیابی حاصل کی،وہ اپنے نوجوانی کے عالم میں پٹنہ ہائی کورٹ کے اسٹینڈنگ کاؤنسل بنائے گئے اوربعد میں اُنہیں ڈسٹرکٹ جج کے عُہدے پر مامور کرنے کا فرمان جاری کیا گیا؛لیکن زندگی ناپائیدار نے ساتھ چھوڑدیا،اُس زمانے کی بہت مہلک بیماری نے اپنے زد میں لے لیااوررانچی میں علاج کے دوران ہی ان کا انتقال1947ء میں ہی ہوگیا،مرحوم رانچی میں مدفون ہیں۔مسٹر محمد یونس نے ان کی شادی اپنے بڑے سالے مظفرامام منصف مرزاپور یوپی کی اکلوتی بیٹی رحمنی یٰسین یونس سے کی تھی،مسٹر محمد یٰسین یونس اپنے پانچ نومولد بچوں کو چھوڑ کر دارفانی سے کوچ کرگئے،ان کے بچوں کی بھی ذمہ داری بیرسٹر محمد یونس نے اپنی زندگی تک بحسن وخوبی نبھائی،چھوٹے بیٹے محمد یعقوب یونس کو بھی انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیوسٹی میں داخلہ کروایا،جہاں سے انہوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی؛لیکن ان کا شوق کچھ نرالہ تھا،وہ فلمی دنیا میں اپنا نام روشن کرنا چاہتے تھے،اسی غرض سے انہوں نے ایک فلم میں کچھ کردار بھی نبھائے،وہ دور ناچنے گانے والوں کے لیے معیوب سمجھا جاتا تھا،اسی وجہ سے مسٹر محمدیونس اپنے چھوٹے بیٹے سے ناراض رہا کرتے تھے۔
بیرسٹر محمد یونس کی بیگم زیب النساء کا انتقال پرملال19/مارچ1924ء کو اپنے والد کی رہائش گاہ مرزاپور یوپی میں ہوچکا تھا، جس کے بعد انہوں نے دوسری شادی پٹنہ ہاسپیٹل کے مشہور ومعروف سرجن حبیب الرحمن مرحوم اِرکی،جہان آبادکی صاحبزادی عتیقہ خاتون سے کی،وہ بھی ان کے قریبی رشتہ داروں میں تھیں،عتیقہ یونس کے بطن سے اُنہیں کوئی اولاد نہ ہوئی۔
بیرسٹرمحمدیونس نے مختلف عدالتوں میں وکالت کی اورانہوں نے ہرجگہ اپنا الگ مقام قائم کیا،ان دنوں چونکہ صوبہ بہار اور اڈیشہ ایک صوبہ تھا؛ لیکن یہاں ہائی کورٹ نہیں تھا، لوگوں کو اپنے مقدموں کے سلسلہ میں کلکتہ جانا پڑتا تھا اوربڑی پریشانی اٹھانی پڑتی تھی، جب عوام کی پریشانی کا احساس برطانوی حکومت کو ہواتو انگریزی سلطنت نے فیصلہ کیا کہ صوبہ بہار میں ایک ہائی کورٹ کا قیام عمل میں لایا جائے، اس طرح1916ء میں باضابطہ پٹنہ ہائی کورٹ کا قیام عمل میں آیا،پھر کیا تھا؟بیرسٹر محمد یونس کو اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کا بھی موقع ملا،اُن دنوں ہائی کورٹ کی جگہ کے گردونواح کی زمینیں جو بالکل بنجر ویران علاقہ سمجھا جاتا تھا،ان کے مالکان سے زمین خریدیں اورکلکتہ سے آنے والے بنگالی بیرسٹروں اوروکیلوں کے قیام گاہ اورمکانات کے لیے پلاٹنگ کا سلسلہ قائم کیا۔ فریزر روڈ، ڈاک بنگلہ روڈ،جمال روڈ، اگزبیشن روڈ، پیرموہانی، چوہٹا، پٹنہ میں انہوں نے کافی زمینیں خریدیں اورپٹنہ کے قلب میں واقع ڈاک بنگلہ چوراہے کے سامنے فریزر روڈپر ایک نایاب ہوٹل کا قیام کیا،جس کانام گرینڈ ہوٹل رکھا۔صوبہ بہار میں انگریزی طرزکا یہی ایک نایاب ہوٹل انگریزی سلطنت کے عملوں کے ٹھہرنے کی واحد جگہ تھی،جب ان کے دوستانہ مراسم انگریزوں سے ہوئے تو انہوں نے مارٹین کمپنی سے بی بی لائٹ(بختیارپور بہارمشرقی ریلوے)ریلوے خریدی،اپنی تجارت کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے دلارپور چائے کمپنی قائم کی،پٹنہ کے قلب میں بینک قائم کیا،جس کانام اورینٹ بینک رکھا۔ان کی ذہانت بے مثال تھی،جب جے ڈی ٹاٹا نے پہلی بوئنگ پسنجر جہاز اُڑائی تو انہیں بھی خیال آیا کہ کیوں نہ ایئرلائنس کا قیام عمل میں لایا جائے،اسی سلسلے میں انہوں نے1952ء میں لندن کا سفر کیا،جوان کی زندگی کا آخری سفر تھا۔اچانک حرکت قلب کے رُک جانے کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا اوروہیں مدفون ہوئے۔
بیرسٹر محمد یونس ماہر قانون،تاجر،ادیب وشاعر کے ساتھ ساتھ اچھے سیاست داں بھی تھے،ان کی سب سے بڑی خوبی تھی انسانیت دوستی،اپنے گاؤں پنہرا کے ہندومسلمانوں کی یکساں فکر کرتے تھے،اپنے تمام کاروبار میں وہ اپنے گاؤں اوراہل واقارب کو ملازمت دینا اوّلین فریضہ سمجھتے تھے،انہوں نے اپنی محنت سے کمائی ہوئی تمام جائیداد اوروراثت میں ملی تمام میراث کو مورخہ 8جون 1926ء میں رجسٹرڈ وقف کردیا تھااوراپنی ذاتی محنت سے کمائی ہوئی عظیم جائیداد موقوفہ کو اپنے وارثین کے علاوہ ملت کا سرمایہ قراردیتے ہوئے وقف بورڈ میں وقف نمبر802 اندراج کروایا۔دندان سازی، بڑھی گری، لوہارگری، زردوزی کے کام کو فروغ دینے کی غرض سے ایک ٹکنیکل ادارہ کے قیام کا اقدامی منصوبہ پیش کیا اوراپنی جائیداد موقوفہ میں سے20یتیموں کی تعلیم وتربیت،طعام وقیام کا نایاب انتظام کیا، اپنی لگن اورمحنت کے بل بوتے آپ صوبہ بہار کی عظیم شخصیت کے طور پرجانے پہچانے جانے لگے، انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کی حیثیت سے کی اورکئی برسوں تک بہار اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوتے رہے،پٹنہ میونسپل بورڈ کے لیے منتخب ہوئے،تین مرتبہ بہارقانون ساز کونسل کے ممبر منتخب ہوئے،1921ء تا1923ء کے درمیان وہ بہار قانون ساز کونسل کے چیف وہپ بھی رہے،آنجناب نے بھی کانگریس کی رکنیت حاصل کی تھی اورملک کی آزادی کی خاطر نمایاں کردار ادا کیا تھا،جب سول نافرمانی تحریک شروع کرنے سے متعلق حکیم اجمل خاں، پنڈت موتی لال نہرو،اورسردار بلبھ بھائی پٹیل پٹنہ تشریف لائے تھے تو مسٹر محمد یونس نے سوراجی جھنڈوں کے ساتھ پٹنہ اسٹیشن پر ان کا استقبال کیا تھا اورانہوں نے اپنے گھر واقع فریزرروڈ گرینڈ ہوٹل میں انُہیں مہمان بنایا تھا۔
جب ہندوستان کی آزادی نے اپنی پہلی منزل کو طے کرلیا تھا اورپورے ملک نے کروٹ لی تھی،برطانوی حکومت نے 1935ء ایکٹ پاس کیا اوراسی ایکٹ کے مطابق پورے ملک میں ایک انٹریم گورنمنٹ کے قیام کا منصوبہ انگریزی سلطنت نے ہندوستانیوں کے سامنے پیش کیا،اس وقت ملک میں آباد قوموں کی ہمت نہ تھی کہ انگریزوں کے خلاف کوئی بغاوت کی آواز اٹھاتا،یہ تو مسلمانوں کے آباء واجداد کا ہی حوصلہ تھا کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف ہمہ وقت لوہا لیااورمتواتر جنگیں لڑیں۔ 1857ء تک اکیلے مسلمانوں نے جہدآزادی کی لڑائی لڑی،اس کی وجہ صاف تھی،چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت وسلطنت چھینی تھی،یہ وجہ تھی کہ درد بھی سب سے زیادہ مسلمانوں کو تھا اوراپنی کھوئی ہوئی سلطنت کو دوبارہ حاصل کرنے کی غرض سے ہمارے علماء کرام اوردانشوران قوم اپنے جانوں کے نذرانے پیش کررہے تھے،وہیں انگریز بھی مسلمانوں کو ہی اپنا اصل دشمن قراردے کر خوب مظالم ڈھارہے تھے۔تاریخ داں کہتے ہیں کہ جامع مسجد دہلی سے لے کر پشاور تک کوئی درخت ایسا نہ تھا،جس پر علمائے کرام کی گردنیں نہ لٹکائی گئی ہوں،اللہ اکبر آج ہم نے اپنے اسلاف کی عظیم قربانیوں کو کیسے بھلادیا؟
جب1935ء ایکٹ کے تحت ملک میں انتخابی عمل کی شروعات ہوئی،تب بھی ملک میں مسلمان سیاسی طور سے ٹوٹ پھوٹ کے شکار تھے،اس وقت مسٹر محمد علی جناح مسلم لیگ کی کمان سنبھال رہے تھے،ملک کے مختلف پروونسوں میں مسلمانوں کی بھی الگ الگ سیاسی جماعتیں موجود تھیں،کانگریس بھی ایک الگ مضبوط سیاسی جماعت بن چکی تھی اوراس کے اصل لیڈر گاندھی جی تھے۔
مسلمانوں کو متحد کرنے کی غرض سے مورخہ10مئی1936کو سروزیر حسن کی صدارت میں مسلم لیگ کا ممبئی میں ایک کانفرنس منعقد کیا گیا تھا،اس کانفرنس میں 35سرکردہ نمائندہ جماعت کے سرپرستوں پر مشتمل ایک پارلیمنٹری بورڈ کے قیام سے متعلق اختیارات مسٹر محمد علی جناح کو سونپا گیا تھا،ساتھ ہی انہیں انتخابی منشور بھی تیار کرنے اورآئندہ ہونے والے انتخابات کے لیے سبھی ضروری اقدام اٹھانے کی بھی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
انہوں نے اس وقت کی سرکردہ مسلم سیاسی جماعتوں کے لیڈران سے گفتگو کی خاطر مختلف پروونسوں کا دورہ کیا اورجمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا احمد سعید،صوبہ پنجاب میں شفیع لیگ کے لیڈر محمد شفیع،بنگال کے مشہور رہنما فضل الحق اورخواجہ نظام الدین، یوپی میں راشٹریہ کسان پارٹی کے لیڈر نواب چھتاری اوربیرسٹر محمد یوسف امام،صوبہ بہار کے امارت شرعیہ کے نائب امیر شریعت اور مسلم انڈی پنڈٹ پارٹی کے رہنما ابوالمحاسن محمد سجاد ااورمسٹر محمد یونس کے علاوہ مسلم اتحاد بورڈ جس کی حیثیت کافی مضبوط تھی اور مرکز میں ایک تہائی نشست حاصل کرچکی تھی،ان سبھی کے لیڈران سے ملاقاتیں کیں۔
جب قوموں کو جوڑنے کی فکر سے مسٹر محمد علی جناح پٹنہ تشریف لائے اوررضوان بلڈنگ(ٹوٹو امام بلڈنگ)جو آج سمراٹ ہوٹل فریزرروڈ کے سامنے بوسیدہ حالت میں موجود ہے جو نولکھا بلڈنگ کے نام سے بھی مشہور ہے کے وسیع وعریض میدان میں لوگوں کو خطاب عام کیا اورسبھی لوگوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی دعوت دی اورخصوصی طور پر مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد اورمسٹرمحمد یونس سے مفاہمت کی درخواست کی؛لیکن صوبہ بہار کے مسلم رہنما ہونے کی حیثیت سے ان لوگوں نے انہیں اطمینان دلایا اوربھرپور بھروسہ پیش کیا کہ مجھے اپنی کامیابی پر پورا بھروسہ ہے،میں اپنی پارٹی مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کی ٹکٹ سے ہی امیدوار کھڑا کروں گا،جس کے بعد مسٹر محمد علی جناح نے تاریخ ساز فیصلے لیتے ہوئے یہ طے کیا کہ وہ مسلم لیگ کا ایک بھی نمائندہ صوبہ بہارمیں کھڑا نہیں کریں گے،یہی وجہ تھی کہ صوبہ بہار کے مسلمانوں کا انتشار ختم ہوگیا اورصوبہ بہار میں مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی 1937ء کے انتخاب میں کامیاب ہوئی اورنمایاں ہوکر سبھوں کے سامنے تھی،کانگریس نمائندوں کی تعداد اس لیے زیادہ تھی؛ کیونکہ آبادی کے لحاظ سے ہندوآبادی کی تعداد زیادہ تھی اورSeparate Electorateاور Personal Representationکے مطابق ہندوؤں نے اپنے ہندو نمائندوں کو ووٹ دیا تو مسلمانوں نے مسلم نمائندوں کے حق میں ووٹ ڈالا تھا،جب کہ کانگریس پارٹی نے اس وقت بھی جگہ جگہ سے مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے مسلم نمائندوں کے خلاف اپنے کانگریسی مسلم نمائندوں کو کھڑا کرنے کاناپاک کام کیا تھا؛لیکن پھر بھی دوسرے نمبر کی پارٹی(Second Largest Party) کے طور سے مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی جیت کر سامنے تھی،وہیں کانگریس کے ایک دو مسلم نمائندوں کے علاوہ سبھی کانگریسی مسلم امیدواروں کی ہار ہوئی تھی؛کیوں کہ مسلمانوں نے اپنے ووٹ کو ریفرنڈم کے طور پر استعمال کیا تھا اوروہ اپنے ووٹ کی طاقت کو خوب سمجھتے تھے،کل25نمائندے منتخب ہوئے،جن میں حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ؒبھی بھاگل پور سے جیت درج کرائی تھی۔انتخابات کے بعد مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی میں پارٹی لیڈر کے انتخاب کاعمل پیش ہوا،پارٹی لیڈر کے لیے میدان میں دوامیدوار آمنے سامنے تھے،پہلے بیرسٹر محمد یونس اوردوسرے ملک محمود،دونوں لیڈران کو12-12عدد برابر ووٹ حاصل ہوئے تھے؛لیکن پارٹی کے جنرل سکریٹری جناب سید محمد ولی الحق شاہوبگھوی جو مزاحیہ شاعر اسرارجامعی صاحب مرحوم کے والد تھے، انہوں نے اپنا ایک قیمتی ووٹ بیرسٹر محمد یونس کو دے کر پارٹی کے لیڈر کی حیثیت عطا کردی تھی۔
سب سے بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے برطانوی گورنر نے کانگریس کو حکومت سازی کے لیے مدعو کیا؛ لیکن کانگریس نے گورنر کے اختیارات کو گھٹانے کی شرط رکھی؛لیکن فرنگی سلطنت نے اپنے اختیارات کو گھٹانے سے صاف انکار کردیا،جس کی وجہ سے کانگریس نے حکومت سازی سے منع کردیا۔
اب دوسری بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے گورنر نے مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے لیڈر بیرسٹر محمد یونس کو حکومت سازی کے لیے دعوت دی اوراس طرح بیرسٹر محمد یونس صوبہ بہار کے؛پہلے پریمئر کی حیثیت سے صوبہ بہار کے منصب وزیراعظم پر فائز ہوئے،اس وقت ہر پروونس میں وزیراعظم کا عہدہ ہوا کرتا تھا،مسٹر محمد یونس نے اپنے دوروزارت میں کارہائے نمایاں انجام دیئے اورذاتی مصروفیات کے باوجود بھی قوم وملت کے علاوہ ملک اورعوام کی خاطر انصاف اورعدل قائم کیا،انہوں نے اپنے دوروزارت میں تین اہم عمارتوں کی تعمیر کروائی،بہار قانون ساز اسمبلی اوربہار قانون ساز کونسل کے علاوہ سول کورٹ کی عمارت کی تعمیر کا سہرا بھی اُنہیں کے سر ہے،ان عمارتوں پر درج تاریخ آج بھی اس بات کی غمازی کرتی ہیں؛لیکن افسوس کہ ان عمارتوں کے معمار کو ہم نے سرے سے بھلادیا۔
بیرسٹر محمد یونس نے بہار قانون ساز اسمبلی میں جو اہم فیصلے لیے،وہ قابل ستائش ہیں،انہوں نے:
(1)دستور جدید انڈیا ایکٹ1935ء کی خامیوں کے پیش نظر ایک ترمیمی بل پیش کیا،جسے تین دنوں کی گرماگرم بحث ومباحثہ کے بعد مخالف کانگریس پارٹی نے محمد یونس سے مفاہمت کی،جس کے بعد ہی ہندوستان آج موجودہ شکل میں نظر آرہا ہے۔
(2)ایگریکلچر انکم ٹیکس بل،اس کے تحت انہوں نے مسلم اوقاف کی جائیداد کو ٹیکس سے مستثنیٰ کردیا۔
(3)مسلمانوں کے قومی ومذہبی تحفظات بل پیش کئے۔
(4)میونسپلٹیوں اورڈسٹرکٹ بورڈ میں مسلمانوں کی نمائندگی سے متعلق مسودات کو واضح طور پر پیش کیا۔
(5)مسلم ااوقاف کی نگرانی اورتحفظ بل لائے۔
(6)اردو رسم الخط کو پہلی سرکاری زبان کا درجہ عطاکرتے ہوئے آرڈرجاری کردیا کہ:
”کافی غور وخوض کے بعد وزارت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ اردو تحریر کے استعمال کی اجازت پٹنہ کمشنری(جہاں پہلے سے تحریر کی اجازت تھی)سے باہر بھی کیوں نہ دی جائے؛لہذا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ماہ جون 1937سے تمام عدالتوں اوردفاتر میں اردو تحریر مستقل بنیاد پر جاری کردی جائے“۔
بیرسٹر محمد یونس کے کئی تاریخی کارنامے ہیں،جسے انہوں نے اپنے دوروزارت میں بحسن وخوبی انجام دیا،اس وقت ان کے اعزاز میں ایک جلسہ انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں منعقد کیا گیا تھا،اس کے بعد کسی نے زحمت گوارہ نہیں کی کہ اس عظیم تاریخ ساز شخصیت کو کبھی یاد کیا جائے،اس عظیم شخصیت سے متعلق خواص وعوام کے ذہن سے جب تمام نقوش مٹ چکے تھے،ایسے میں راقم الحروف نے مورخہ2جون 2008ء کو اسی تاریخی انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں دوسری بار اس عظیم شخصیت کی یاد میں ایک جلسہ منعقد کیا،جب جلسے کے سلسلہ میں لوگوں کو دعوت دینے جاتا تو لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے اوراس عظیم شخصیت سے متعلق لاعلمی کا مظاہرہ کرتے،یہاں تک کہ جب وزیراعلیٰ محترم جناب نتیش کمار جی کو دعوت دینے کی غرض سے جناب اکبر امام صاحب مرحوم کے ساتھ گیا تو انہوں نے دعوت نامہ قبول کرنے سے بھی یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ ایسے کسی شخص کو میں نہیں جانتا،آپ لوگ ایک نئی بات پیدا کرنے کے لیے مجھے دعوت دینے کیوں چلے آئے؟بہرحال جلسہ کی صدارت مرحوم حضرت محمد ولی رحمانی صاحب امیر شریعت کی تھی اورمہمان خصوصی جناب مناظر حسن صاحب سابق ایم پی شریک ہوئے تھے،اس عظیم شخصیت کی یادگار جلسے میں عوام کا امنڈتا ہوا سیلاب تھا،اس جلسے میں موجودہ بہارسرکار سے دومانگ رکھی گئی تھی:پہلا یہ کہ صوبہ بہارکے پہلے پریمئر بیرسٹر محمد یونس کی سرکاری طور سے ہرسال یادگار منایا جائے اوردوسرا کہ وزیراعلیٰ کے چیمبر میں لگی تختی پر جہاں دوسرے پریمئر شری بابوکانام درج ہے،وہاں اوپر میں پہلے پریمئر کانام درج کیا جائے۔
وزیراعلیٰ نتیش کمار نے اس جلسے کے ٹھیک دوسرے سال یعنی2009ء میں ہی اس عظیم شخصیت کا سرکاری طور سے یادگارمنانے کا اعلان کردیا اوراس وقت سے ہر سال یادگاری جلسہ قائم ہوتا آرہاہے؛لیکن وزیراعلیٰ کے چیمبر کی تختی آج بھی اس عظیم شخصیت کے نام کے اندراج کی منتظر ہے،مجھے امید ہی نہیں یقین ہے کہ موجودہ وزیراعلیٰ محترم نتیش کمار جی کے ذریعہ اس اہم کام کو بھی ضرور پورا کیا جائے گا۔