اردو تحقیق و تنقید دنیا کی تمام زبانوں سے آنکھ ملا سکتی ہے: ڈاکٹر خالد علوی

ریسرچ ایک صبر آزما کام ہے جسے بغیر تربیت حاصل کیے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ مقالہ لکھنا تحقیق کا ایک مرحلہ ہے لیکن اسے کسی کانفرنس میں کس طرح پیش کرنا چاہیے یہ بھی تحقیق کا ایک حصہ ہے۔

ریسرچ ایک صبر آزما کام ہے جسے بغیر تربیت حاصل کیے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ مقالہ لکھنا تحقیق کا ایک مرحلہ ہے لیکن اسے کسی کانفرنس میں کس طرح پیش کرنا چاہیے یہ بھی تحقیق کا ایک حصہ ہے۔

اردو تحقیق و تنقید دنیا کی تمام زبانوں سے آنکھ ملا سکتی ہے: ڈاکٹر خالد علوی

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سہ رو زہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز غالب سمینار کا افتتاح

 

MPNN – NEWS

اردو میں تحقیق و تنقید کی روایت بہت ثروت مند ہے لیکن اس کی تابناک تاریخ پر محض فخر کرنا کافی نہیں ہے۔ نئے زمانے میں ہماری ذمہ داریاں پہلے کے مقابلے کچھ زیادہ ہیں۔ عہد حاضر میں تحقیق کے تقاضوں میں یہ بھی ہے کہ اس کو جدید ٹکنالوجی سے جوڑا جائے۔ نوجوان نسل ٹکنالوجی سے باخبر ہے ہمیں اس کی تربیت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ مجھے خوشی ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ادارہ غالب انسٹی ٹیوٹ ہر سال بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز غالب سمینار کا انعقاد کر کے نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ان خیالات کااظہار اردو کے نامورنقادودانشور ڈاکٹر خالد علوی نے سمینار کے کلیدی خطبہ میں کیا۔ سمینار کا افتتاح جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر پروفیسر افشار عالم نے کیا۔ افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ریسرچ ایک صبر آزما کام ہے جسے بغیر تربیت حاصل کیے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ مقالہ لکھنا تحقیق کا ایک مرحلہ ہے لیکن اسے کسی کانفرنس میں کس طرح پیش کرنا چاہیے یہ بھی تحقیق کا ایک حصہ ہے۔ اس طرح کے سمینار اور بھی ہونے چاہیے تاکہ نوجوان نسل کو اپنی تربیت کے زیادہ مواقع مل سکیں۔ استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کہا، غالب انسٹی ٹیوٹ کے پروگراموں میں ریسرچ اسکالر سمینار مجھے اس لیے بہت پسند ہے کہ اس کے ذریعے سے طلبا کی تربیت بھی ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے قریب بھی آتے ہیں۔ اس سمینار کی روایت رہی ہے کہ اس میں بیرون ملک سے ریسرچ اسکالرس کو دعوت دی جاتی ہے اور وہ ہمیشہ اپنے ملک اور اپنی دانشگاہ کی بہترین نمائندگی کرتے ہیں۔سمینار کی صدارت اردو کے ممتاز ناقد پروفیسر عتیق اللہ نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ تحقیق میں موضوع اور تحقیق کرنے والے کی ہم مزاجی ضروری ہے ورنہ تحقیق کرنے والا ریسرچ کا حق ادا نہیں کر سکے گا۔ تحقیق ایک سنگلاخ وادی ہے عجلت پسندی اور ہر شے کو مادی فائدے کی نظر سے دیکھنے والا اس سفر کی تاب نہیں لا سکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اساتذہ کے لیے لازم ہے کہ موضوع دیتے وقت طالب علم کے طبعی رجحان پر بھی نظر رکھیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب میں سمینار میں شریک ہو رہا ہوں ایک مسلسل تاریخ ہے جو غالب انسٹی ٹیوٹ نے رقم کی ہے، اس کے لیے وہ قابل ستائش ہے۔مرکز تحقیقات فارسی، ایران کلچر ہاو ¿س، نئی دہلی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر قہرمان سلیمانی نے افتتاحی اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت فرمائی اس موقع پر انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ ہر سال بین الاقوامی سطح پر ریسرچ اسکالرز سمینار کا انعقاد کرتا ہے اور اس میں اردو کے علاوہ فارسی کے طلبا اور اساتذہ کو برابر کی نمائندگی دی جاتی ہے۔ اردو اور فارسی میں تحقیق کی جو مستحکم روایت رہی ہے ہمیں اس کو دنیا تک پہنچانا چاہیے اور رجحانات کا بھی دل کھول کے استقبال کرنا چاہیے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ ریسرچ اسکالر سمینار کا سلسلہ 1999سے شروع ہوا تھا اور اس کے بعد سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ ابتدا میںجن لوگوں نے اس سمینار میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے شرکت کی تھی آج وہ ملک کی بہترین دانشگاہوں میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں یا ادب میں اپنی نمایاں شناخت قائم کر چکے ہیں۔ اس سمینار کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ ہماری دانشگاہوں میں ہونے والی تحقیق کا ایک خاکہ سامنے آئے اور طلبا کا ایک دوسرے سے رابطہ قائم ہو اور ہم اس مقصد میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ میں اپنے تمام مہمانوں اور شرکا کا شکر گزار ہوں کہ آپ کی شرکت سے ہمیں بہت حوصلہ ملا۔ سمینار کے ادبی اجلاس 14 اور 15 اکتوبر کو صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک ایوان غالب میں منعقد ہوں گے۔
تصویر میں دائیں سے:پروفیسر افشار عالم، ڈاکٹر ادریس احمد، محترمہ کرسٹینا آسٹرہاڈ، پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر قہرمان سلیمانی

Leave A Reply

Your email address will not be published.