ایک خاموش، گمنام اورغیر معمولی شخصیت کا غیر معمولی تعارف
ایک خاموش، گمنام اورغیر معمولی شخصیت کا غیر معمولی تعارف
ایس زیڈ ملک
میں آج ایک ایسے انسان کا تعارف کرانے جا رہا ہوں جو سماج میں بالکل خاموش دکھائی دیتا ہے لیکن اپنے آپ میں بے چین رہتا ہے،اس لئے کہ وہ اس دنیا اور سماج میں امن،ہم آہنگی اور تہذیب وتمدن دیکھنا چاہتا ہے۔اس کے لئے وہ متفکر رہتاہے۔لوگ اسے دنیا اور سماج کے حالات سے انجان سمجھتے ہیں۔در اصل وہ دنیااورسماج کی مکمل معلومات رکھتے ہوئے بھی خودکو خاموش اور انجان رہنا بہتر سمجھتاہے۔وہ سنجیدہ فطرت کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ فلاسفر اور ماہر اقتصادیات بھی ہے۔ملک قبیلے میں ایسے بہت سے لوگ پیدا ہوئے جو اونچے اونچے عہدے پر رہے مگر وہ سب نے اپنے آپ کو محدود رکھا لیکن ملک قبیلے میں تلاش کرنے پر دانشور وں اور رہبروں میں ایک دانشوراور رہبر دہلی یونیورسیٹی کے شعبہ اقتصادیا ت میں مامور پروفیسر اور صحافت کی دنیا میں بین الاقوامی انگریزی ماہنامہ انڈین ڈومینین کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر عاصمی رضا کانام بھی بڑے ہی احترام سے لیا جاتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عاصمی رضاکسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں،ان کا آبائی وطن صوبہ بہار کے نالندہ ضلع واقع برناواں گاؤں ہے،نانیہال نالندہ ضلع کے ہی زمینداری کے لئے مشہورملکوں کاگاؤں انڈھوس ہے جبکہ ان کی پیدائش جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں ہوئی اور وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔رانچی میں ان کے والد جناب شہاب الدین احمدمرحوم پوسٹیڈ تھے،وہ پولیس محکمے میں اعلی عہدے پر فائزتھے۔ انہوں نے بہارشریف اورپٹنہ سے اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ ٹی این بی کالج بھاگلپور سے انٹر میڈیٹ کیا، دہلی یونیورسیٹی سے اکنامکس کے ساتھ بی اے آنرس کیا۔اس کے بعد جواہر لعل یونیورسیٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈ ی کی ڈگری حاصل کر دہلی یونیورسیٹی میں پروفیسر کے عہدے پر مامور ہوگئے۔ان کا پورا خاندان تعلیم یافتہ ہے اور مختلف محکموں میں اعلی عہدے پر فائز ہے۔انہیں وراثت میں دوہی چیزیں ملی ہیں۔اول تعلیم کے ساتھ تجربہ اوردوم بزرگوں کی دعائیں۔ ان کے پاس خاندانی دولت کی کمی نہیں ہے،پھر بھی انہوں نے دولت کو ترجیح نہیں دی۔انہوں نے صرف اپنی محنت پر بھروسہ کیا۔وہ ہمیشہ اپنے درد سے زیادہ دوسروں کے درد کو محسوس کرتے رہے اور اسی کے تحت ہمیشہ غریبوں،مجبوروں اور ضرورتمندوں کی مدد میں آگے رہے۔ شائد مدد کرنا ان کی عادت میں شامل ہے۔ ایک اونچے عہدے پر ہونے کے با وجود ان کے مزاج میں کبھی گھمنڈ دیکھنے کو نہیں ملا جبکہ ملک ایک ایسا قبیلہ ہے جس میں زمیندارانہ تکبر واضح نظر آتا ہے جبکہ زمینداری ختم ہو چکی ہے،یعنی رسی جل گئی اینٹھن باقی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عاصمی رضاکو ہمیشہ اپنے سے چھوٹوں اور غریبوں بالخصوص بزرگوں کا احترام کرتے دیکھا گیا،انہیں کسی غریب کا درد برداشت نہیں ہوتا ہے۔ کسی غریب کو چاہے وہ اپنا ہو یا بیگانہ اس کی پریشانی کو دیکھنے کے بعد وہ اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھتے جب تک اس کی مد د نہ کر دیں،اسے بتائے بغیر اس کی مدد کرتے ہیں۔وہ اپنے اندر سماج کا درد سمیٹنے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو اعلی تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ہندوستانی اقتصادی نظام پر ان کی کافی اچھی پکڑ ہے،انہوں نے ہندوستانی اقتصادی نطام پرانگریزی میں کئی کتابیں لکھی ہیں اور خوراک تحفظ اور بین الا قوامی تجارت پر ان کا گہرا مطالعہ ہے،اس بھی انہوں ایک کتاب لکھی ہے جو بین الاقوامی سطح پر شائع ہو چکی ہے۔اب بھی وہ ہندوستان کی نئی پالیسی اور اقتصادی نظام پر نئی کتاب لکھنے میں مصروف ہیں۔ ان کے کئی شاگرد اس وقت ملک ا ور غیر ممالک میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔اتنا کچھ ہونے کے باجود ان کی شخصیت میں کبھی لالچ، گھمنڈ یا بدلے کا جذبہ نہیں ملتا ہے۔وہ اپنی ہر بات کو مثال دیکربہت ہی اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہیں جسے سننے والے کو ماننا پڑتا ہے۔