مولانا سید جلال الدین عمری کا انتقال ملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ

مولاناسید جلال الدین عمری تحریک اسلامی کے چوٹی کے رہنمائوں میں شمارہوتے تھے - اسلام کے مختلف پہلوئوں پر ان کی بیش قیمت تصانیف ان کی عظمت وقابلیت کا ثبوت ہیں

مولاناسید جلال الدین عمری تحریک اسلامی کے چوٹی کے رہنمائوں میں شمارہوتے تھے دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں انتہائی مصروف رہنے کے باوجود اسلام کے مختلف پہلوئوں پر ان کی بیش قیمت تصانیف ان کی عظمت وقابلیت کا ثبوت ہیں

مولانا سید جلال الدین عمری کا  انتقال
ملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ

ساجد عبید

جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے سابق صدر اور ممتاز عالم دین مولانا سید جلال الدین عمری کا 87 سال کی عمر میں 26 اگست کو تقریباً 8.30 بجے شب نئی دہلی کے الشفاء اسپتال میں انتقال ہوگیااور اگلے دن یعنی 27 اگست کو شاہین باغ قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی جس میں مذہبی’سیاسی’سماجی ‘ادبی اور صحافتی شخصیات سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔ نماز جنازہ جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے موجودہ صدرسعادت اللہ حسینی نے پڑھائی ۔ سید جلال الدین عمری برصغیر ہندو پاک کے مشہور عالم دین اور مصنف تھے۔ انہوں نے دو درجن سے زائد کتابیں تصنیف دی ہیں۔ مولاناسید جلال الدین عمری 2007ء سے 2019ء تک جماعت اسلامی ہند کے امیر رہے ‘وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر بھی رہ چکے تھے ۔ ۔وہ جامعۃ الفلاح بلریا گنج کے سربراہ بھی تھے، اس کے علاوہ بہت سی دینی وملی تنظیموں اور اداروں کے ذمہ دار تھے ۔ مولاناسید جلال الدین عمری تحریک اسلامی کے چوٹی کے رہنمائوں میں شمارہوتے تھے دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں انتہائی مصروف رہنے کے باوجود اسلام کے مختلف پہلوئوں پر ان کی بیش قیمت تصانیف ان کی عظمت وقابلیت کا ثبوت ہیں ۔ مولانا عمری کی ولادت 1935ء میں جنوبی ہند تمل ناڈو کے ضلع شمالی آرکاٹ کے ایک گاؤں پتّگرم میں ہوئی،ان کے والد کا نام سید حسین تھا۔ابتدائی تعلیم گاؤں ہی کے اسکول میں حاصل کی مگر فضیلت کا کورس جامعہ دار السلام عمر آباد سے1954 میں مکمل کیااور عمری کہلائے۔ اسی دوران مدراس یونیورسٹی کے امتحانات بھی دیے اور فارسی زبان وادب کی ڈگری ’منشی فاضل‘ حاصل کی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے (اونلی انگلش) پرائیوٹ سے پاس کیا۔
ممتاز عالم دین مولانا رضی الاسلام ندوی کے مطابق مولانا عمری کا شمار عالم اسلام کے ان چند ممتاز علماء میں ہوتا ہے جنھوں نے مختلف پہلوؤں سے اسلام کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور اسلام کی تفہیم و تشریح کے لیے قابل قدر لٹریچر تیار کیا ہے ۔ اسلام کی دعوت ، عقائد ، عبادات ، معاشرت ، معاملات اور سیاست پر ان کی تصانیف سند کا درجہ رکھتی ہیں ۔ مولانا عمری کو خراج عقیدت پیش کر تے ہوئے انہوں نے ان کی زندگی کے تعلق سے اہم اطلاعات بھی فراہم کیں۔ مولانا عمری جامعہ عمر آباد سے فراغت کے فوراً بعد وہ مرکز جماعت اسلامی ہند رام پور آگئے تھے اور وہاں کے اصحابِ علم سے آزادانہ استفادہ کیا ، پھر 1956ء میں جماعت کے شعبۂ تصنیف سے وابستہ ہوگئے ۔ یہ شعبہ 1970 میں رام پورسے علی گڑھ منتقل ہوگیا اور ایک دہائی کے بعد اسے ’ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی‘ کے نام سے ایک آزاد سوسائٹی کی شکل دے دی گئی ۔ مولانا اس کے آغاز سے 2001ء تک اس کے سکریٹری ، اس کے بعد اب تک اس کے صدر تھے ۔ وہ ادارہ کے باوقار ترجمان سہ ماہی مجلہ’تحقیقات اسلامی‘ کے بانی مدیر بھی رہ چکے تھے ۔ یہ مجلہ اپنی زندگی کے 40 سال پورے کرچکاہے ۔ اسی دوران میں آپ نے پانچ سال (1986 تا 1990) جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی کی ادارت کے فراض بھی انجام دیے ۔
ملک کی متنوع دینی ، ملی ، دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں مولانا عمری کی سرگرم شرکت رہی ہے ۔ مرحوم طویل عرصے تک جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مجلس شوریٰ کے معزز رکن رہے ۔ 1990 سے مارچ 2007 تک جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر تھے ۔ اس کے بعد مارچ 2019 تک اس کی امارت کی ذمہ داری نبھائی ۔ موجودہ میقات میں وہ جماعت کی شریعہ کونسل کے چیرمین تھے ۔
مولانا عمری کو دورِ طالب علمی سے ہی سے مضمون نویسی سے دل چسپی تھی ۔ آپ کا مزاج تحقیقی تھا ۔مختلف موضوعات پر آپ کی تقریباً چار درجن تصانیف ہیں ۔ ان میں تجلیات قرآن ، اوراقِ سیرت ، معروف و منکر ، غیرمسلموں سے تعلقات اوران کے حقوق ، خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں ، احکامِ ہجرت و جہاد ، انسان اوراس کے مسائل ، صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات ، اسلام اور مشکلاتِ حیات ، اسلام کی دعوت ، اسلام کا شورائی نظام ، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور ، انفاق فی سبیبل اللہ ، اسلام انسانی حقوق کا پاسباں ، کم زور اور مظلوم اسلام کے سایے میں ، غیراسلامی ریاست اور مسلمان ، تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث جیسی علمی تصانیف آپ کی تراوشِ قلم کا نتیجہ ہیں ۔ اسلام کا معاشرتی نظام مولانا کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے ۔ عورت اسلامی معاشرے میں ، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ ، عورت اوراسلام ، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں اور اسلام کا عائلی نظام جیسی تصانیف اس کا بہترین ثبوت پیش کرتی ہیں ۔ آپ کی کئی کتابیں زیرِ ترتیب تھیں ۔ ان کے علاوہ مختلف علمی اور فکری موضوعات پر آپ کے بہ کثرت مقالات ملک اوربیرون ملک کے رسائل اور مجلات میں شائع ہوچکے ہیں ۔
مولانا کی متعدد تصانیف کے تراجم عربی ، انگریزی ، ترکی ، ہندی، ملیالم ، کنڑ ، تیلگو ، مراٹھی ، گجراتی ، بنگلہ اور تمل وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں ۔ موضوعات کا تنوع ، استدلال کی قوت ، عقلی اپیل ، فقہی توسع ، زبان وبیان کی شگفتگی اوراعلیٰ تحقیقی معیارآپ کی تحریروں کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔
مولانا سید جلال الدین عمری کی وفات پر تعزیت کا اطہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنی تعزیتی بیان میں کہاہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد جن چند گنے چنے اہل علم نے اسلام کی مؤثر ترجمانی اور اعتدال و میانہ روی کے ساتھ مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے؛ ان میں بہت ہی نمایاں نام مولانا سید جلال الدین عمری کا ہے۔ وہ ایک بلند پایہ مصنف، صاحب نظر محقق، زمانہ شناس داعی اور ہمہ جہت صلاحیتوں کی حامل شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں نوجوان نسل کو اپنا مخاطب بنایا اور عصر حاضر میں ہونے والے مسائل پر گہری بصیرت اور اعتدال کے ساتھ روشنی ڈالی۔
آ ل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے کہا کہ مولانا سید جلال الدین عمری برصغیر ہندو پاک کے ممتاز اور جید عالم دین تھے،تواضع، عاجزی اورخاکساری اور خوش اخلاقی ان کی فطرت ثانیہ تھی۔مولانا عرفی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ وہ ایک مشہور اسلامی اسکالر تھے اور پوری زندگی دعوتی، تحریکی اور اصلاحی کاموں میں منہمک رہے۔ ان کی شخصیت ایک تحریکی اور دعوتی شخصیت تھی، ان کے انتقال سے دعوت و تحریک، اصلاح و ارشاد اور تصنیف و تالیف کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کی تلافی کی کوئی شکل نظر نہیں آتی۔انہوں نے کہا کہ وہ ملت اسلامیہ ہندیہ کی رہ نمائی اور دعوتی کاز کے لیے ہر دم فعال اور تیار رہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ مولانا مرحوم دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں انتہائی مصروف رہنے کے باوجودقلم و قرطاس کی دنیا سے غافل نہیں رہتے تھے اورادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے پلیٹ فارم سے تصنیفی اور تالیفی کاموں میں بھی لگے رہتے تھے۔اہم موضوعات پر تقریبا تین درجے کتابیں اور کتابچے ان کی یادگار ہیں۔ انھوں نے دعوت و تحریک اور اسلام کے مختلف پہلؤوں پر کتابیں تصنیف کیں، جنھیں علمی اور دینی حلقوں میں بہت پذیرائی اور مقبولیت نصیب ہوئی۔ مولانا کا پیدائشی تعلق تو جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو کے شمالی آرکاٹ ضلع سے تھا، مگر ان کا میدان عمل دار الحکومت دہلی تھا، جہاں رہ کر انھوں نے قوم و ملت کی اصلاح اور اس کی قیادت و سیادت کا مہتم بالشان فریضہ انجام دیا۔
مولانا عمری کے تعلق سے سب سے اہم بات جو ہے’وہ یہ ہے کہ وہ محض امت مسلمہ کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے تعلق سے فکرمند دہتے تھے۔ بہ طور امیر پریس سے خطاب کے دوران بھی وہ پوری انسانیت کی بقا کی ہی بات کر تے تھے۔ بےشک مولانا عمری کا انتقال ملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ ہے۔ اللہ مرحوم کی قبر کو اپنے نور سے منور کرےاور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔آمین۔

Comments are closed.